Orhan

Add To collaction

دل سنبھل جا ذرا

دل سنبھل جا ذرا 
از قلم خانزادی 
قسط نمبر3

اپنے بابا کی بات سن کر فہیم کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔لیکن اگلے ہی پل اس کی ساری خوشی ہوا بن کر اڑ گئی۔۔۔ایک طرف وہ گھر واپس آنے کے لیے خوش تھا اور دوسری طرف اسے اپنی جان سے پیاری بہن کے بچھڑ جانے کا غم۔۔۔!!
ایسے میں وہ کرتا اسے کچھ سمجھ نہی آ رہا تھا۔۔۔امی اب چپ بھی ہو جائیں آپ کب تک روتی رہیں گی۔۔۔ماں کو روتا دیکھ فہیم ماں کی طرف بڑھا۔۔جو قسمت میں لکھا ہو وہی ہوتا ہے امی۔۔۔!!
ہو سکتا ہے اسی میں منال کے لیے بہتری ہو وہ ماں کو تسلیاں دے رہا تھا مگر حقیقت کچھ اور تھی اصل میں تو وہ بھی منال کے لیے تڑپ رہا تھا۔۔لیکن سب کے سامنے ظاہر نہی کر رہا تھا۔۔۔!!
تم نے منال کے ماتھے پر چوٹ دیکھی تھی فہیم وہ تڑپ کر بولیں۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے میری بیٹی پر بہت ظلم کر رہا ہے وہ شخص اسے نا کردہ گناہوں کی سزا دے رہا ہے ۔۔۔!!
کتنی خوش تھی میری بچی صبح گھر سے جاتے ہوئے۔۔اسے کیا پتہ تھا کہ دوبارہ گھر ایسے واپس آئے گی۔۔کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔۔۔مجھے میری بچی کے پاس لے چلو فہیم میں کیسے رہوں گی اس کے بغیر۔۔۔۔!!
اور وہ کیسے رہے گی ہم سب کے بغیر۔۔۔ہمارے سامنے وہ اسے کیسے بازو سے کھینچتے ہوئے لے گیا۔۔۔کتنا ڈر تھا منال کے چہرے پر وہ پتہ نہی کیسے زندگی گزارے گی اس کے ساتھ۔۔۔ہمارے سامنے یہ سلوک کر رہا تھا وہ منال کے ساتھ بعد میں پتہ نہی کتنے ظلم کرے گا اس پر۔۔۔!!
میرا تو سوچ سوچ کر ہی دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔۔امی اب آپ پریشان نہ ہو جو ہونا تھا ہو گیا۔۔۔ہم لوگ تو بس دعا ہی کر سکتے ہیں منال کے لیے اس کی آنے والی زندگی کے لیے۔۔۔!!
سانیہ کھانا لے کر آو ماما اور بابا کے لیے۔۔۔فہیم سانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔سانیہ اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔امی آئیں آپ ادھر بیٹھیں آپ لوگ کھانا کھا لیں۔۔۔!!
نہی فہیم مجھے بھوک نہی ہے پتہ نہی میری بچی نے دوپہر سے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہی اب تو رات ہونے والی ہے۔۔۔وہ پھر سے رونے لگ پڑیں۔۔۔!!
امی آپ چپ ہو جائیں اتنے بھی برا نہی لگا مجھے حنان۔۔مجھے نہی لگتا کہ وہ ایسا کچھ کرے گا منال کے ساتھ۔۔۔تب ہی سانیہ کھانا لے کر وہاں آ گئی۔۔۔جی امی آپ پریشان نہ ہو میری ماما بہت اچھی ہیں۔۔۔!!
وہ بہت خیال رکھیں گی منال کا۔۔۔وہ بلکل آپ کے جیسی ہیں۔۔منال کو کسی چیز کی کمی نہی ہونے دیں گی وہ۔۔۔اور رہی بات حنان کی تو حنان بھی آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔!!
حنان دل کا برا نہی ہے بس غصے کا زرا تیز ہے آپ بے فکر ہو جائیں۔۔۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔اس کے ساتھ کسی نے زبردستی تو نہی کی اس نے منال کو خود اپنی زندگی میں شامل کیا ہے۔۔۔۔!!
جو بھی ہو اب وہ اس کی بیوی ہے اس کی زمہ داری ہے۔۔۔نکاح کے رشتے میں بہت طاقت ہوتی ہے امی دو اجنبی لوگ زندگی بھر کے لیے ہم سفر بن جاتے ہیں۔۔۔۔!!
اس رشتے کی نسبت حنان کو بھی بہت جلد احساس ہو جائے گا اپنی زمہ داریوں کا۔۔اسے غصہ تو مجھ پر اور فہیم پر تھا لیکن شاید اسے پتہ نہی وہ غصے ہی غصے میں منال کے نام اپنی زندگی لکھ چکا ہے۔۔۔!!
جیسے ہی حنان کو اپنے رشتے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا جائے گا۔۔اس کا دل منال کے لیے نرم ہوتا جائے گا۔۔آپ باقی سب اللہ پر چھوڑ دیں جو ہوتا ہے اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔۔۔اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔انشااللہ۔۔۔!!
جی امی سانیہ بلکل ٹھیک کہ رہی ہے جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے اسی لیے پریشان ہونے سے کچھ نہی حاصل ہونا اب۔۔۔دعا کریں بس اللہ ہماری منال کے نصیب اچھے کرے آمین۔۔۔!!
سانیہ ابو کو بھی کھانا ڈال کر دو۔۔۔اور امی کو بھی۔۔۔چلیں ابو کھانا شروع کریں پھر میڈیسن بھی کھانی ہے آپ نے۔۔۔سانیہ نے دونوں کو کھانا ڈال کر دیا۔۔۔جب وہ دونوں کھانا کھا چکے تو وہ لوگ بھی کھانا کھا کر اپنے گھر چلے گئے۔۔۔!!
صبح ان کو واپس گھر شفٹ ہونا تھا۔۔اسی لیے سوچا کہ رات کو ہی پیکنگ وغیرہ کر لیں تا کہ صبح مشکل نہ ہو۔۔۔!!
رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا منال سوئچ بورڈ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے آگے بڑھی تو بٹن دبانے پر زیرو سائز بلب روشن ہو گیا کمرے میں جس کی روشنی بہت کم تھی۔۔۔!!
کر بھی کیا سکتی تھی منال چپ چاپ ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھ گئی۔۔۔اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔۔بھوک سے برا حال تھا۔۔لیکن کسی سے کچھ کہ بھی نہی سکتی تھی۔۔۔۔!!
کچھ دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور وہی عورت ہاتھ میں کھانے کی ٹرے اٹھائے اندر داخل ہوئی۔۔۔منال نے اسے دیکھ کر منہ موڑ لیا۔۔۔!!
کھانا کھا لو بیٹا۔۔۔اب کی بار اس کا لہجہ بہت نرم تھا۔۔۔منال کو حیرانگی ہوئی اس کے لہجے پر۔۔۔!!
دیکھو بیٹا جو ہونا تھا ہو چکا کھانے سے کیسی دشمنی ہے۔۔۔اور ویسے بھی اب تمہارا نکاح ہو چکا ہے چھوٹے صاحب سے۔۔۔یہ تو تمہاری خوش قسمتی ہے کہ تمہارا نکاح اتنے اچھے انسان سے ہوا ہے۔۔۔!!
چھوٹے صاحب دل کے برے انسان نہی ہے بس حالات نے انہیں ایسا بنا دیا ہے۔۔۔دیکھنا جیسے جیسے وقت گزرے کا ان کا رویہ تمہارے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔اب تم سے منہ نہی موڑ سکتے وہ تم بیوی بن چکی ہو ان کی۔۔۔!!
یہ کھانا کھا لو تا کہ میں برتن باہر لے جاوں۔۔جلدی سے ختم کر لو کھانا ورنہ مجھے ڈانٹ پڑ جانی ہے۔۔وہ التجائی نظروں سے منال کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔میرا نام شبانہ ہے۔میں اس گھر کی کئیر ٹیکر ہوں۔۔۔!!
آپ جو کوئی بھی ہیں مجھے اس بات سے کوئی فرق نہی پڑتا۔۔آپ یہ کھانا واپس لے جائیں اور کہ دیں اپنے چھوٹے صاحب سے مجھے بھوک نہی ہے۔۔ان کے دئیے گئے زخموں سے میرا پیٹ بھر چکا ہے۔۔!!
اپنے ساتھ خود ظلم کر رہی ہو تم بیٹا چپ چاپ کھانا کھا لو۔۔۔!!
میں نے ایک بار کہ دیا نہ آپ سے کہ میں کھانا نہی کھاوں گی۔۔۔آپ جائیں یہاں سے اور دروازہ اچھی طرح بند کر جائیں۔۔کہی میں بھاگ نہ جاوں۔۔۔!!
شبانہ چپ چاپ کھانے کی ٹرے اٹھا کر دروازہ بند کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔!!
منال وہی زمین پر لیٹ گئی۔۔۔اسے ٹھنڈ کا احساس ہو رہا تھا۔۔آج سے پہلے وہ کبھی فرش پر نہی سوئی تھی۔۔۔تب ہی کمرے کا اکلوتا بلب بھی بند ہو گیا۔۔بلب جل چکا تھا۔۔۔اب کمرہ پوری طرح اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔۔۔!!
منال اپنی جگہ سے ہلی تک نہی اسے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا تھا مگر وہ اب کچھ کر بھی نہی سکتی تھی۔۔۔روتے روتے کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے پتہ ہی نہی چلا۔۔۔یہ اندھیرے تو اب اس کا مقدر بن چکے تھے۔۔۔!!
حنان رات کے دو بجے گھر لوٹا۔۔۔منال کو گھر چھوڑتے ہی وہ باہر نکل گیا تھا۔۔۔تب کا اب گھر لوٹا تھا۔۔اپنے کمرے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ شبانہ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔۔!!
صاحب جی کھانا لگا دوں آپ کے لیے۔۔۔؟؟
نہہی۔۔مجھے بھوک نہی ہے۔۔۔فون پر سے نظریں ہٹائے بغیر ہی اس نے جواب دیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔تب ہی کچھ یاد آنے پر پلٹا۔۔۔اس نے کھانا کھا لیا۔۔۔فون پر ہی نظریں جمائے بولا۔۔۔!!
نہی صاحب جی میں لے کر گئی تھی کھانا لیکن اس نے کھانے سے انکار کر دیا۔۔۔کہتی مجھے بھوک نہی ہے واپس لے جاو کھانا۔۔۔!!
واٹ۔۔۔؟؟؟ ٹائم دیکھو کیا ہو رہا ہے۔۔۔اور اس نے ابھی تک کھانا نہی کھایا۔۔۔تم کیا کرتی ہو شبانہ ایک تو مجھے تمہاری سمجھ نہی آتی۔۔۔مجھے فون بھی تو کر سکتی تھی نہ۔۔۔حنان تپ چکا تھا۔۔۔!!
وہ صاحب جی۔۔۔۔!! 
وہ وہ چھوڑو اور جلدی سے کھانا لے کر آو ابھی کہ ابھی۔۔۔کہتے ہوئے حنان اس کمرے کی طرف بڑھا جہاں منال تھی۔۔۔!!
اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو کمرے میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔۔۔اپنے فون کی ٹارچ آن کی اس نے تو منال اسے سامنے فرش پر پڑی نظر آئی۔۔۔وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔۔۔!!
منال۔۔۔۔!! دو سے تین بار اس نے آواز دی لیکن منال نہی اٹھی۔۔۔آخر کار تنگ آ کر اس نے منال پر جھکتے ہوئے اس کا گال تھپتپایا تو اسے منال کا چہرہ تپتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔!!
اس نے دوبارہ منال کے گال پر ہاتھ لگایا تو پتہ چلا کہ اسے تو بہت تیز بخار ہے۔۔۔وہ منال کو اٹھاتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔اور لے جا کر منال کو بیڈ پر لٹا دیا۔۔۔!!
تیز بخار کی وجہ سے منال بے ہوش ہو چکی تھی۔۔حنان نے جلدی سے ڈاکٹر کو فون کیا۔۔۔اور خود شبانہ سے رومال اور پانی منگوا کر منال کو پٹیاں کرنے لگ پڑا۔۔۔!!
ڈاکٹر نے آ کر منال کو چیک کیا اور پٹیاں کرنے کا کہ کر دوائیاں لکھ کر دے کر چلا گیا۔۔۔کچھ نہ کھانے کی وجہ سے منال کا بی پی لو ہو چکا تھا۔۔۔!!
کچھ دیر بعد جب منال کا بخار کچھ کم ہوا تو حنان نے شبانہ سے کہا کہ اسے اٹھا کر کچھ کھلا کر یہ دوائی کھلا دے۔۔۔!!
شبانہ نے زبردستی منال کو تھوڑے سے چاول کھلائے اور زبردستی اسے دوائی کھلا کر لٹا دیا۔۔۔اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔منال ابھی بھی نیم بے حوشی میں تھی۔۔۔۔!!
شبانہ کے کمرے سے باہر جاتے ہی حنان کمرے میں آ گیا۔۔اور منال کے پاس ہی بیٹھ گیا۔۔۔کچھ دیر تک ایسے ہی بیٹھا رہا جب اس نے دیکھا کہ منال پرسکون سو رہی ہے تو لائٹ آف کر کے وہ بھی سونے کے لیے لیٹ گیا صوفے پر۔۔۔۔!!
حنان کو صوفے پر نیند نہی آ رہی تھی اسے بیڈ پر سونے کی عادت تھی۔۔۔نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اٹھ کر بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔!!
صبح جب منال کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو بستر  پر لیٹے پایا۔۔۔لیکن اسے اپنی گردن پر کوئی بھاری چیز محسوس ہوئی۔۔جب اس نے ہاتھ لگایا تو وہ بازو تھا۔۔۔!!
پھر اس کی نظر اپنے قریب لیٹے حنان پر پڑی تو اس کے ہوش اڑ گئے۔۔۔منال نے چیخ ماری تو حنان نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔حنان کا چہرہ منال کے چہرے کے بلکل قریب تھا۔۔!!
حنان کی سانسیں منال کو اپنے چہرے پر پڑتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔۔۔حنان کی اتنی قربت پر منال پسینے سے شرابور ہو گئی اور تیزی سے ہاتھ پیر مارنے لگ پڑی۔۔۔!!
منال کی اس حرکت پر حنان کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئی۔۔۔اسے سمجھ نہی آیا اب کیا کرے۔۔۔دیکھو۔۔۔جیسا تم سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہی ہے۔۔میں ہاتھ ہٹانے لگا ہوں چلانا مت۔۔۔حنان غصے سے بولا تو منال پر سکون ہو گئی۔۔۔!!
حنان نے آرام سے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹھا لیا۔۔۔اور سائیڈ پر ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔منال جلدی سے اٹھ کر اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرنے لگ پڑی۔۔۔حنان بیڈ سے اتر کر منال کی سائیڈ پر گیا اور اسے بازو سے کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔۔!!
کیا سمجھی تھی تم۔۔۔کہ میں کچھ غلط کرنے لگا ہوں تمہارے ساتھ؟؟۔۔بہت ہی گھٹیا سوچ ہے تمہاری اتنا گرا ہوا نہی ہوں میں۔۔۔حنان کی آنکھیں غصے سے لال ہو رہی تھیں۔۔۔!!
منال کو اس سے خوف محسوس ہونے لگ پڑا۔۔۔وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح نہ میں سر ہلائی جا رہی تھی۔۔۔حنان اسے بازو سے کھینچتے ہوئے واپس اسی کمرے میں بند کر کے اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔۔۔!!
منال حیران تھی اس دھوپ چھاوں کی طرح بدلتے انسان کو دیکھ کر۔۔۔منال کو سمجھ نہی آ رہی تھی کہ وہ وہاں کمرے میں پہنچی کیسے وہ تو یہاں سوئی تھی رات کو فرش پر۔۔۔!!
دو گھنٹوں بعد شبانہ ہاتھ میں کھانے کی ٹرے اٹھائے چلی آئی۔۔۔یہ لیں میڈم ناشتہ کریں۔۔۔اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔۔۔!!
کیا ہوا تم ہنس کیوں رہی ہو۔۔۔منال اس کو مسلسل مسکراتے دیکھ کر بول پڑی۔۔۔!!
کچھ نہی تم۔۔۔میرا مطلب آپ ناشتہ کر لیں۔۔۔اور پھر یہ دوائی کھا لیں۔۔۔شبانہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔!!
آپ مجھے تم بھی کہ سکتی ہیں۔۔اور میرا نام منال ہے میڈم نہی۔۔۔۔منال کو شبانہ کا اس کو میڈم کہنا تھوڑا عجیب لگا تھا تو اسی لیے بول پڑی۔۔۔!!
اور یہ دوائی کس لیے۔۔؟؟ مجھے کیا ہوا ہے بھلا۔۔۔میں یہ دوائی نہی کھانے والی۔۔۔اور نہ ہی مجھے ناشتہ کرنا ہے مجھے کوئی احسان نہی چاہیے اس گھر کے لوگوں کا مرتی ہوں تو مر جاوں۔۔۔!!
یہی تو چاہتے ہیں وہ ملک حنان صاحب۔۔۔تم جا کر کہ دو اپنے صاحب سے مجھے کسی چیز کی ضرورت نہی ہے لے جاو یہ سب کچھ یہاں سے اٹھا کر منال تپ چکی تھی۔۔۔۔!!
کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔۔اگر رات کو صاحب نہ آتے تو اب تک تو شاید زندہ نہی ہوتی آپ۔۔۔ساری رات بخار سے تڑپتی رہی ہو۔۔۔یہاں سے اٹھا کر وہ آپ کو اپنے کمرے میں لے گئے تھے۔۔۔!!
ساری رات پٹیاں کرتے رہے ڈاکٹر کو بلوایا۔۔۔علاج کروایا جب بخار تھوڑا کم ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں تمہے کھانا کھلا کر دوائی کھلا دوں۔۔۔آپ تو نیم بے حوشی میں تھیں کچھ یاد نہی ہے آپ کو۔۔۔!!
اب یہ ناشتہ کر کے دوائی کھا لیجئیے گا میں چلتی ہوں مجھے اور بھی کام ہیں۔۔۔کہتے ہوئے شبانہ کمرے سے نکل گئی۔۔۔منال نے ناشتے والی ٹرے اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دی۔۔۔۔!!
اسے سمجھ نہی آ رہی تھی کیا ہے یہ شخص آخر چاہتا کیا ہے مجھ سے۔۔۔کبھی ظلم کرتا ہے تو کبھی رحم کھاتا ہے۔۔۔منال کچھ سمجھ نہی پا رہی تھی۔۔۔!!
چند منٹ ہی گزرے تھے کہ کمرے کا دروازہ پھر سے کھلا تھا۔۔حنان تیزی سے کمرے میں داخل ہوا اور ناشتے والی ٹرے ویسے کی ویسے پڑی دیکھ اس کی رگیں تن گئیں غصے سے۔۔۔۔!!
وہ منال کی طرف بڑھا۔۔ناشتہ کیوں نہی کیا تم نے۔۔؟؟ حنان کی غصے سے بھری آواز کمرے میں گونجی تو منال اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔مجھے بھوک نہی ہے۔۔۔ابھی منال نے اتنا کہا ہی تھا کہ۔۔۔!!
ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر لگا اور وہ وہی فرش پر گر پڑی۔۔۔!!
اگر تمہیں لگتا ہے کہ اتنی آسانی سے میں تمہیں مرنے دوں گا تو یہ غلط فہمی ہے تمہاری۔۔۔تم روز مرو گی پل پل مرو گی۔۔۔حنان کا لہجہ بہت سخت تھا۔۔منال ڈر کر دیوار کے ساتھ لگ گئی۔۔۔!!
لیکن اگلے ہی پل ہمت کر کے حنان کے سامنے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔کیوں۔۔؟؟؟
میں کیوں مروں گی پل پل۔۔۔؟؟؟ آخر میں نے آپکا بگاڑا کیا ہے کیوں برداشت کروں میں یہ سب کچھ۔۔۔کیوں۔۔۔منال چیختے ہوئے بولی۔۔۔!!
حنان تیزی سے منال کی طرف بڑھا۔۔۔ابھی مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ رک گیا۔۔۔!! جاننا چاہتی ہو کیوں۔۔۔؟؟؟ کیوں کر رہا ہوں میں یہ سب کچھ؟؟
حنان اسے بازو سے کھینچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا۔۔۔اور اوپر کی طرف بڑھا منال کو ساتھ کھینچتے ہوئے۔۔ایک کمرے کے سامنے جا کر رک گیا۔۔اور کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے اندر داخل ہو گیا۔۔۔!!
سامنے بیڈ پر ایک ادھیڑ عمر عورت لیٹی ہوئی تھی۔۔۔حنان کو اندر آتے دیکھ کر اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔حنان منال کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھا اور ان کو سہارا دے کر بٹھایا۔۔۔!!
اور ایک نظر منال پر ڈالی۔۔۔!! جانتی ہو یہ کون ہیں منال کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔؟؟؟
ؓمنال نے ڈرتے ڈرتے سر نفی میں ہلا دیا۔۔۔وہ عورت بھی منال کی طرف متوجہ ہوئیں۔۔۔!!
یہ میری دادو ہیں۔۔۔حنان سخت لہجے میں بولا۔۔اور جانتی ہو ان کی اس حالت کے زمہ دار کون ہیں۔۔۔؟؟تمہارا بھائی اور سانیہ۔۔۔!!
کیا ہوا سانیہ کو حنان کی دادو جلدی سے بولیں۔۔۔کچھ پتہ چلا سانیہ کا کہاں ہے میری بچی۔۔۔مجھے لے چلو حنان اس کے پاس۔۔۔!!
منال کو ان کی حالت پر بہت ترس آیا لیکن وہ بولی کچھ نہی۔۔۔آج اسے سمجھ آ چکی تھی کہ اس کے بھائی کی غلطی سے کتنے دل دکھے ہیں۔۔۔!!
دادو آپ ریلیکس ہو جائیں۔۔۔سانیہ بلکل ٹھیک ہے وہ بہت جلد آپ سے ملنے آئے گی۔۔۔حنان نرمی سے ان کے ہاتھ پر بوسہ دیتے ہوئے بولا۔۔۔!!
کیا سچ میں سانیہ مل گئی۔ ۔۔یا اللہ تیرا شکر ہے میری بچی سہی سلامت مل گئی۔۔۔!!
یہ لڑکی کون ہے حنان تمہاری دوست ہے کیا مجھے ملواو گے نہی اس سے۔۔۔منال کو سامنے کھڑے دیکھا  تو بول پڑیں۔۔۔!!
جی کیوں نہی دادو ابھی ملواتا ہوں۔۔۔منال یہاں آو۔۔۔حنان منال کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تو منال تیزی سے آگے بڑھی۔۔۔!!
اسلام و علیکم دادو۔۔۔منال نے ان کو سلام کیا۔۔۔وعلیکم اسلام انہوں نے بھی محبت سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔بہت پیاری بچی ہے انہوں نے منال کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔!!
یہ آپ کی بہو ہے دادو۔۔۔مسز حنان ملک۔۔!! حنان نے کی بات پر انہیں شاک لگا۔۔۔کیا مطلب تم نے شادی کر لی حنان اور مجھے بتایا نہی۔۔۔وہ ناراض ہوتے ہوئے بولیں۔۔۔!!
اچھا مزاق کر لیتے ہو بہت شرارتی ہو گئے ہو تم آجکل بوڑھی دادی کے ساتھ اب ایسے مزاق کرو گے تم۔۔آنے دو تمہاری ماں کو ٹھیک کرواتی ہوں تمہیں میں وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔!!
اپنی کسی دوست کو میرے سامنے لا کر کہ رہے ہو کہ بیوی ہے میری۔۔۔میری آنکھیں ابھی اتنی کمزور نہی ہیں مجھے یونیفارم نظر آ رہا ہے اس کا۔۔۔!!
نہی دادو میں مزاق کیوں کروں گا میں نے واقعی اس سے نکاح کر لیا ہے کل رات۔۔۔!! جلدی جلدی میں بتانا یاد نہی رہا۔۔۔!!
لیکن اب بتا رہا ہوں نہ۔۔۔پلیز دادو آپ ناراض مت ہونا اب۔۔اس کو سیدھا کالج سے اٹھا کر لایا ہوں۔۔۔نکاح کرنے کے لیے۔۔۔اب یہ یہی رہے گی۔۔۔میری غلام بن کر۔۔۔!!
یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم حنان تمہارے ماں باپ کو پتہ چلے گا تو پتہ نہی کیا کرے گے تمہارے ساتھ تم اچھی طرح واقف ہو اپنے باپ کے غصے سے پتہ نہی کیا ہو گا جب اسے پتہ چلے گا کہ تم نے شادی کر لی ہے۔۔۔!!
نہی دادو شادی نہی صرف نکاح کیا ہے۔۔۔شادی تو میں آپ کی پسند کی لڑکی سے کروں گا اور بہت دھوم دھام سے کروں گا۔۔۔حنان منال کی طرف دیکھتے ہوئے بولا کہ منال کیسے ری ایکٹ کرتی ہے۔۔۔!!
منال کے چہرے پر کوئی ری ایکشن نہی تھا وہ چپ چاپ ویسے کی ویسے ہی کھڑی تھی۔۔۔وہ خود کو مکمل لا تعلق رکھے ہوئے تھی حنان کی بات سے۔۔۔!!
یہ کیسی باتیں کر رہے ہو حنان۔۔نکاح اس سے کیا ہے شادی کسی اور سے کرو گے۔۔۔مجھے تو تمہاری کسی بات کی سمجھ نہی آ رہی۔۔۔دادو بولیں۔۔!!
حنان مسکرا دیا ڈونٹ وری دادو بہت جلد پتہ چل جائے گا آپ کو فلحال اس بہو سے تو مل لیں آپ دوسری سے بھی جلدی ملاقات ہو گی آپ کی۔۔۔!!
منال نے ابھی بھی کوئی ری ایکشن نہی دیا حنان کی بات پر اور یہی بات حنان کو غصہ دلا رہی تھی وہ چاہتا تھا کہ منال روئے گی اس کی بات پر۔۔اسے تکلیف پہنچے گی لیکن منال نے ایسا کچھ نہی کیا۔۔۔!!
ٹھیک ہے دادو آپ آرام کریں۔۔۔میں زرا آپ کی بہو کو کمرے تک چھوڑ آوں اس کی طبیعت ٹھیک نہہی ہے۔۔۔!!
کیوں کیا ہوا بیٹا تمہاری طبیعت کو۔۔۔دادو منال کا جائزہ لیتے ہوئے بولیں۔۔۔کچھ نہی بس تھوڑا سا بخار تھا دادو اب ٹھیک ہے۔۔۔ان کو ناشتہ کر کے دوائی کھانی ہے اسی لیے کہ رہا ہوں۔۔۔اس سے پہلے کہ منال کوئی جواب دیتی حنان بول پڑا۔۔۔!!
چلیں حنان منال کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔تو منال اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔۔۔دادو وہی بیٹھی ان دونوں کو دیکھتے حیران رہ گئی یہ کیا ہو رہا ہے میری تو کچھ سمجھ میں نہی آ رہا۔۔۔!!
حنان دوبارہ منال کو اسی کمرے میں لے آیا اور اسے ناشتہ کرنے کو کہا منال چپ چاپ ناشتے کرنے کے لیے بیٹھ گئی۔۔۔حنان حیران تھا کہ منال نے اب کوئی ضد نہی کی۔۔۔!!
جب تک منال نے ناشتہ کر کے دوائی نہ کھا لی حنان وہی کھڑا رہا۔۔۔!!! جب منال ناشتہ کر چکی تو حنان نے اسے برتن اٹھانے کو کہا منال چپ چاپ برتن اٹھائے حنان کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔۔۔!!
کچن میں پہنچ کر منال نے برتن کچن میں رکھ ۔دئیے۔۔۔میرے لیے ناشتہ بناو۔۔۔حنان نے کہا تو منال نے اسے ایسے دیکھا جیسے پتہ نہی کیا کہ دیا ہو اس نے۔۔۔!!
مممجھے کھانا بنانا نہی آتا۔میں نے کبھی کھانا نہی بنایا۔۔۔منال نظریں جھکائے ڈرتے ڈرتے بولی۔۔۔!!
مجھے کہانیاں مت سناو چپ چاپ جو کہا ہے کرو۔۔۔میں ویٹ کر رہا پانچ منٹ میں ناشتہ لے کر باہر پہنچو۔۔۔کہتے ہوئے حنان کچن سے باہر نکل گیا۔ ۔!!
تب ہی شبانہ کچن کے باہر مل گئی۔۔۔صاحب جی آپ کا ناشتہ ٹیبل پر لگا دیا ہے۔۔۔!!
ٹھیک ہے کہتے ہوئے حنان آگے بڑھ گیا۔۔۔حنان کی آواز منال کے کانوں تک پہنچ چکی تھی۔۔۔وہ جانتی تھی کہ حنان اس کے ہاتھ کا بنا ناشتہ نہی کھائے گا وہ تو بس اسے تکلیف پہنچانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔۔!!
خیر جو بھی ہو اب ناشتہ تو بنانا ہی تھا منال کو منال نے جلدی سے کیتلی میں پانی ڈال کر چائے کے لیے رکھا اور چائے بنانے لگ پڑی اور ساتھ آملیٹ اور بریڈ رکھ کر جلدی سے باہر کی طرف بڑھی۔۔۔!!
ناشتے کی ٹرے لے جا کر حنان کے سامنے رکھ دی۔۔۔ٹوٹا پھوٹا آملیٹ اور جلے ہوئے ٹوسٹ دیکھ کر حنان کو منال پر بہت غصہ آیا۔۔۔یہ ناشتہ ہے۔۔۔؟؟
وہ منال کی طرف بڑھا۔۔۔اور یہ چائے۔۔۔میں چائے نہی پیتا۔۔۔کافی پیتا ہوں وہ بھی شام کو ناشتے میں جوس پیتا ہوں میں۔۔۔چائے کا کپ منال کے سامنے کرتے ہوئے بولا۔۔۔اور اٹھا کر وہی کپ زور سے زمین پر پھینک دیا۔۔۔!!
گرم چائے منال کے پاوں پر گر گئی۔۔۔لیکن اسے اس وقت اس چائے کی جلن سے زیادہ حنان کے غصے سے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔اس بیچاری نے تو کبھی گھر کا کوئی کام کیا ہی نہی تھا۔۔۔۔!!
جو اسے جلدی جلدی میں سمجھ میں آیا اس نے بنا دیا۔۔۔اب اسے کیا پتہ تھا کہ حنان کو چائے نہی جوس پسند ہے۔۔اسے کوئی بتاتا تو پتہ چلتا اسے۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔منال ڈرتے ڈرتے بولی۔۔۔!!
آئیندہ میں خیال رکھو گی۔۔۔مجھے نہی پتہ تھا کہ آپ کو چائے نہی جوس پسند ہے۔۔۔منال کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔۔۔وہ بہت مشکلوں سے درد کو ظبط کیے کھڑی تھی۔۔۔۔!!
مجھے تمہاری سوری کی ضرورت نہی ہے جاو یہاں سے اپنے کمرے میں اور جب تک میں نہ کہوں باہر مت آنا۔۔۔حنان چلاتے ہوئے بولا تو منال جلدی سے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔!!
کمرے میں جا کر دروازہ بند کر کے اپنے پاوں کا جائزہ لینے لگ پڑی اور ساتھ ہی ساتھ رونے لگ پڑی۔۔۔ایک بار کچن میں چائے بنانے گئی تو کپ میں چائے ڈالتے ہوئے تھوڑی چائے منال کے ہاتھ پر گر گئی۔۔تو اس نے چلا چلا کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔۔!!
اس کی آواز سن کر اس کی امی بھاگتی ہوئی کچن میں آئی اور اسے ڈانٹنے لگ پڑی۔۔۔منال اگر چائے پینی تھی تو مجھے بتا دیتی خود کیوں آ گئی کچن میں دیکھو نہ کتنا زیادہ ہاتھ جل گیا ہے۔۔۔!!
ماما آپ مصروف تھیں تو میں نے سوچا آپ کے لیے چائے بنا لوں اسی لیے آ گئی یہاں منال روتے روتے بولی۔۔۔!!
اچھا اب پریشان نہ ہو چلو میں مرہم لگا دیتی ہوں۔۔۔انہوں نے منال کے ہاتھ پر جلدی سے مرہم لگائی تو اس کے ہاتھ کی جلن ٹھیک ہو گئی۔۔اور انہوں نے منال کو منع کیا کہ آج کے بعد کچن میں نہ آئے۔۔۔۔!!
منال کے آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہی لے رہے تھے اسے اپنی امی کی بہت یاد آ رہی تھی۔۔۔ابھی کل کی تو بات تھی وہ اپنی امی کے پاس تھی۔۔۔ایک دن میں اس کی زندگی بدل گئی تھی۔۔۔!!
ایسا کبھی اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ یوں اپنے گھر والوں سے جدا ہو جائے گی اور یہ پتھر دل انسان اس کے مقدر میں لکھ دیا جائے گا۔۔۔!!
پورا دن منال یوں ہی کمرے میں بند بیٹھی رہی یوں ہی بیٹھے بیٹھے شام ہو گئی۔۔۔شبانہ دوپہر کو اس کے لیے کھانا کے کر آئی تھی لیکن اس نے منع کر دیا کھانا کھانے سے اور شبانہ سے کہا کہ حنان کو نہ بتائے اس بارے میں۔۔۔!!
شبانہ مان گئی اور چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گئی کر بھی کیا سکتی تھی ملازمہ تھی اور منال اس گھر کی مالکن تھی اب اس کی بات پر کیسے انکار کر سکتی تھی۔۔۔!!
اور منال نے شکر ادا کیا کہ شکر ہے اللہ کا شبانہ مان گئی۔۔۔کل سے اس نے ایک نماز نہی پڑھی تھی اس نے۔۔۔ایسا کرتی ہوں اب جب شبانہ کمرے میں آئے گی تو اسے کہتی ہوں جائے نماز لا کر دے مجھے۔۔۔!!
پھر اپنے کپڑے دیکھ کر خیال آیا کہ یہ کپڑے تو گندے ہو چکے ہیں گندے فرش پر بیٹھے بیٹھے۔۔۔اب ان کا کیا کروں میرے پاس تو اور کپڑے بھی نہی ہیں۔۔۔!!
ایسا کرتی ہوں شبانہ سے کہتی ہوں کہ اپنا ایک جوڑا لا دے۔۔۔ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔۔ایسا ہی کرتی ہوں ابھی شبانہ دوبارہ آتی ہے تو۔۔۔!!اور کمرے کی صفائی بھی کرنی ہے کتنا گندہ فرش ہوا ہے۔۔۔!!
کمرے میں بلب کی روشنی مدھم سی تھی۔۔منال کی وہی بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی۔۔۔پاوں پر جلن اب تھوڑی کم ہو چکی تھی۔۔۔!!
کچھ دیر بعد منال کو باہر سے شور کی آوازیں سنائی دیں تو اس کی آنکھ کھل گئی۔۔۔حنان زور زور سے بول رہا تھا کسی سے۔۔۔بلکہ چلا رہا تھا۔۔!!
منال نے سوچا کہ کمرے سے باہر جا کر دیکھتی ہوں ابھی وہ دروازے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔اور حنان اندر داخل ہوا۔۔منال جلدی سے سائیڈ پر ہو کر دیوار سے لگ گئی۔۔۔!!
حنان آگے بڑھا اور منال کو بازو سے کھینچتے ہوِئے باہر کی طرف بڑھا۔۔۔منال ننگے پاوں اس کے پیچھے کھینچتی چلی گئی۔۔۔اسے چلنے میں تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔لیکن نا چاہتے ہوئے بھی وہ اس کے ساتھ کھینچتی چلی گئی۔۔۔اب پتہ نہی کون سا طوفان اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔!!
سوچ سوچ کر اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔۔۔!!

   1
0 Comments